Friday, July 5, 2024
آج کے کالمزبینظیر بھٹو کی زندگی خواتین کے لئے مشعلِ راہ ہے۔

بینظیر بھٹو کی زندگی خواتین کے لئے مشعلِ راہ ہے۔

27دسمبر 2007 پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک سیاہ دن کے طور پر یاد کیا جاتا ہے ۔اس روز پاکستان اور عالم اسلام کی پہلی خاتون وزیرِاعظم بےنظیر بھٹو کو ایک سیاسی جلسے سے خطاب کے دوران لیاقت باغ راولپنڈی میں گولی مار کر قتل کردیا گیا تھا۔ لیکن سوال یہ ہے کیا یہ پاکستانی تاریخ میں پہلی سیاسی رہنما تھیں جنہیں یوں بے دردی سے قتل کیا گیا ؟
پاکستان کی سیاسی تاریخ سیاستدانوں کے قتل یا منصوبہ بندی کے تحت انہیں موت کی آغوش میں سلا دینے سے بھری پڑی ہے۔ قائد اعظم کی موت اپنے آپ میں ایک معمہ ہے کہ کیسے انہیں کراچی میں خراب ایمبولینس میں سوار کیا گیا اور آج تک یہ واقعہ سوالات کو جنم دے رہا ہے۔ جس کا تفصیلاََ ذکر قدرت اللہ شہاب نے اپنی سوانح حیات “شہاب نامہ ” میں اور فاطمہ جناح نے اپنی کتاب “مائے برادر جناح” میں کیا ہے۔اسی طرح وزیرِ اعظم پاکستان لیاقت علی خان 1951میں راولپنڈی کے لیاقت باغ میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے بے رحم گولی کا نشانہ بن گئے۔وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو بھی مارشل کے تاریک دور میں پھانسی کا پھندہ جھول گئے جبکہ ان کی صاحب زادی بھی 2007 میں لیاقت باغ میں بے رحم گولی کا نشانہ بن گئیں۔
پاکستان کے سیاستدانوں میں بے نظیر بھٹو ایک منفرد حثیت کی حامل خاتون تھیں جن کے والد پھانسی چڑھے، بھائی قتل ہوئے ، شوہر نے طویل قید کاٹی اورخود بھی جیل کی کوٹھری کی ساکنہ بنیں لیکن اس کے باوجود اُن کا عزم کسی بلند و بالا چٹان کی مانند مضبوط رہا ۔
محترمہ بینظیر بھٹو کو دو دفعہ مسند اقتدار ملی اور دونوں ہی دفعہ اُن کی حکومت کو مدت مکمل کئے بنا ختم کردیا گیا پہلی مرتبہ صدر غلام اسحاق خان جبکہ دوسری دفعہ انہی کی سیاسی جماعت کی جانب سے منتخب ہونے والے صدرِ مملکت فاروق لغاری نے 58(2)بی کی آئینی شق کا سہارا لیتے ہوئے ا ن کی حکومت کو برخاست کردیا ۔ لیکن اس کے باوجود محترمہ بینظیر بھٹو اپنے سیاسی عزم سے پیچھے نہ ہٹیں۔
جنرل مشرف کے مارشل لاء نے سیاستدانوں کو جلاوطنی پر مجبور کیا بے نظیر بھٹو اور نواز شریف جیسے سنئیر سیاستدان جلاوطن ہوئے اور بعدازاں ملک کی سیاسی صورتحال اور منظر نامے کی تبدیلی کے پیش نظروطن واپس لوٹے۔ اس اثنا میں محترمہ بینظیر بھٹو کا جو کارنامہ پاکستان کی جمہوری تاریخ میں سنہری الفاظ میں یاد رکھا جائے گا وہ “میثاقِ جمہوریت” ہے جس نے غیر جمہوری قوتوں کے جمہوری عمل میں رکاوٹ اور سازشوں کے سامنے قدرِ کمزور ہی سہی مگر بند باندھنے کی ابتدا کی۔
اگر بینظیر بھٹو کی زندگی کا جائزہ لیا جائے تو پدرسری سماج میں یہ صنفِ آہن ثابت ہوئیں اور مرد سیاستدانوں کی نسبت ان کا کردار پاکستانی میں سیاست زیادہ موثر رہا۔ پاکستانی سماج مردانہ حاکمیت پر قائم سماج ہے اور یہاں کسی بھی خاتون کے لئے اپنے بل بوتے پر اپنی شناخت قائم کرنا اور پھر اس شناخت کو برقرار رکھنا انتہائی کٹھن کام ہے۔ لیکن بینطیر بھٹو نے نہ صرف پاکستان کی خواتین کے لئے بلکہ عالمِ اسلام کی خواتین کے لئے بھی نظیر قائم کردی کہ عورت کا عزم اور استقلال پدر سری سماج میں اُسے نہ صرف بلند تر مرتبہ دلوا سکتا ہے بلکہ اسے معاشرے کے لئے روشن مثال کے طور بھی زندہ و جاوید کردیتا ہے۔
بے نظیر کے سیاسی مخالفین کی جانب سے بھی ہر طرح کی مخالفت بیان بازی یہاں تک کہ کردار کشی بھی کی گئی مگر ایک خاتون جس کے سیاسی مخالفین بااثر مرد تھے ان کے سامنے ڈٹ کر کھڑی رہی اور وطن عزیز کا ایک جمہوری اور روشن چہرہ دنیا کو دکھانے کی ہر ممکن کوشش کی اور اس تگ و دود میں موت تک کوگلے لگایا لیا مگر کسی کے سامنے جھکی نہیں ۔ بے نظیر کی زندگی ان تمام خواتین کے لیے مشلِ راہ ہے جو اس معاشرے میں پدرسری نظام کے تحت پس رہی ہیں اور اپنے حقوق کی جنگ لڑ رہی ہیں ۔
معصومہ زہرا

دیگر خبریں

Trending

Japanese climber dies while descending one of Pakistan's highest mountain peaks

جاپانی کوہ پیما گولڈن چوٹی پر کریوس میں گر کر ہلاک

0
اردو انٹرنیشنل اسپورٹس ویب ڈیسک تفصیلات کے مطابق جاپانی کوہ پیما گولڈن چوٹی پر کریوس میں گر کر ہلاک ہوگیا .اسی طرح کے...