کرسمس امن ،محبت اور خوشیاں بانٹنے کا پیغام
دنیا بھر میں 25 دسمبر کو مسیحی برادری ہر سال کرسمس کا تہوار مذہبی عقیدت و احترام اور جوش و خروش سے مناتے ہیں ۔کیونکہ یہ دن حضرت عیسیٰ مسیحی علیہ السلام کی پیدائش سےمنسوب ہے آج سے لگ بھگ دوہزار برس قبل سرزمینِ فلسطین پر مریم سلام اللہ علیھا کے ہاں ایک بچے کی پیدائش ہوئی ایک ایسا بچہ جس نے جھولے سے ہی سب سے مخاطب ہو کر اپنی ماں کی پاکیزگی اور رسالت کا اعلان کیا۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ اعلان پوری دنیامیں میں پھیل گیا۔لیکن رواں سال کی شروعات میں کچھ شر پسندوں کی طرف سے پاکستان کے شہرجڑانوالہ میں بسنے والے مسیحی برادری پرقرآن مجید کی بے حرمتی اور مقدس اوراق جلانے کے الزام میں ان کی پوری بستی نظر آتش کردی گئی لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ کوئی بھی اس اقلیت کے حق میں گواہی دینے سامنے نہ آیا ۔ یہاں تک کہ ان گھر جلائے گئے، لوگ اپنی جان و مال کی حفاظت کے لیے سب کچھ چھوڑ کر بھاگنے پہ مجبور ہوگئے۔
وہ نبی جس نے دنیا کو امن ، سلامتی اور محبت کا درس دیا، اپنے ماننے والوں کے دلوں میں رحمت اور شفقت بھر دی آج بھی دنیا بھر کے مسیحیوں اور مسلمانوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔ اور یوں دنیا کے بالترتیب سب سے بڑے مذاہب مسحیت اور اسلام کی مذہبی اور مقدس ہستی شمار ہوتے ہیں۔
پاکستان میں عیسائی عوام اقلیت میں شمار کیے جاتے ہیں مگر ان کی خدمات ملک و قوم کے لیے ایسی ہی ہیں جیسا کہ اکثریت میں بسنے والے مسلمانوں کی۔ تعلیم، وکالت اور افواج یہ وہ ادارے ہیں جن میں مسیحی بھائیوں کی خدمات قابل ِ ستائش ہیں۔ ہمارے پیارے وطن پاکستان میں عیسائیوں کی تعداد تقریباً 26 لاکھ ہے اور یوں یہ اس ملک کی سب سے بڑی اقلیت میں شمار ہوتے ہیں ۔
یہ لوگ ہمہ وقت ملک کی خدمت میں پیش پیش نظر آتے ہیں۔ لیکن پھر بھی ہمارے ہاں کچھ شر پسند عناصر ان لوگوں کے لیے ملک میں تکلیف، غم اور بے بسی کا حالات پیدا کرتے ہیں۔ اس نبی کے ماننے والوں کو تکلیف دیتے ہیں جس پر ایمان لائے بنا ہمارا ایمان نامکمل رہ جاتا ہے۔ یاد رہے کہ حضرت عیسیٰ مسیحی علیہ السلام کی نبوت کا ثبوت خود قران پاک میں بھی کئی جگہ دیا گیا ہے۔
اسلام میں الزام عائد کرنے کے لیے دو مرد گواہوں کا ہونا لازم ہے اور الزام وقت کے قاضی کے مانے لگایا جاتا ہے جس کی وضاحت احادیث، قرآن اور دیگر تعلیمات میں جگہ جگہ بتائی گئی ہے نہ کہ مساجد کے ممبروں سے اعلانات کا طریقہ بتایا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ شر پسندوں نے تو مسجد کا غلط استعمال کیا، لیکن کیا مسلمان سب اپنے مسجد کے ممبر کے غلط استعمال کے ذمہ دار نہیں ہیں، ہم کیوں بھول جاتے ہیں کہ کس پہ الزام لگانے سے پہلے خود اپنے گریبان میں جھانکنا ضروری ہے۔ آج اس مبارک دن میں، مجھےجڑاں والا کی وہ بے گھر و ساماں مظلوم خواتین کے اجڑے اور سہمے ہوئے چہرے نظر آتے ہیں جن کااس ملک میں کھلے آسمان کے علاوہ کوئی ساتھی نہ تھا اور اُن کے لئے انہی کے گھر کی زمین تنگ اور چھت جل چُکی تھی۔
دنیا میں لگ بھگ دوارب سے زائد افراد مسحیت کے پیروکار ہیں یہ مذ ہب اسلام سے قدیم ہے اور بے شمار ممالک اور اقوام میں اس پیغام کے ماننے والے لوگ موجود ہیں جس کی وجہ سے بہت سارے افسانے اس مذہب سے جڑ چکے ہیں جن کو اب اس مذہب سے الگ نہیں کیا جا سکتا جیسا کہ سانٹا کلاز، بہت سارے علما اور رنگ بہ رنگی رسومات مگر پھر بھی حضرت عیسیٰ مسیحی علیہ السلام کے امن، اور محبت کا پیغام اس مذہب کی روح ہے اور یہ ایک حق ہے، جس سے انکاری اپنے ایمان میں کمزوری کا باعث بنتا ہے۔ پاکستان کی مسیحی برادری میں بھی کرسمس کے حوالے سے ہمیں وہی جوش و جذبہ نظر آتا ہے جو دنیا کے باقی ممالک میں مسیحت کے پیروکاروں کے ہاں پایا جاتا ہے۔ مسیحی بستیوں کے باہر سرخ لباس کے اسٹالز سجے نظر آتے ہیں جہاں سینٹا کی ٹوپیاں اور کپڑے بکنے کے لئے سجے ہوتے ہیں۔ مسیحی اس روز گرجا گھروں کو سجاتے ہیں اور دعاؤں اور مناجات سے دن کا آغاز کرتے ہیں۔
ہمیں حادثات کو بھول جانے کی عادت ہے وگرنہ اسلام آباد کی رمشاء مسیحی کسے یاد نہ ہوگی جو کم سن تھی اور اس پرقرآن کے مقدس اوراق جلانے کا مقدمہ قائم کیا گیا تھا بعدازاں جب تحقیقات کی گئیں تو معلوم ہوا کہ مذہب کے لبادے میں تنگ نظر شخص خود ہی اس فعلِ قبیح کا مرتکب پایا گیا۔لاہور کی جوزف کالونی کو کچھ ہی برس گزرے ہیں جہاںمسیحوں کی پوری کی پوری بستی ہی نظر آتش کردی گئی تھی۔ لکھنے اور سنانے کے لئے بہت سے واقعات ہیں مگر یہ دن خوشی اور برکات کا دن ہے اور آج کے دن محبت اور بھائی چارگی کے پیغام کو آپ تک پہنچانا مقصود ہے۔
کرسمس کا تہورا ہے فقط مسیحوں کے لئے ہی مقدس نہیں ہے اگر دیانت داری سے جائزہ لیا جائے تو مسلم آبادی کے لئے عیسیٰ مسیحی علیہ السلام کی ولادت کا روز عید کے روز سے کم نہ ہے لیکن جھوٹے اور تعصب پر مبنی پروپیگنڈوں نے مسیح علیہ السلام سے محبت کرنے والوں میں فاصلے بڑھا رکھے ہیں اس لئے اس دن کو فقط مسیحی برادری کے تہوار کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ یہ دن پاکستان کی دوبڑی مذہبی کمیونٹیز کو جوڑنے کے لئے پل کا کردار ادا کرسکتا ہے جسے اگر مذہبی تعصب سے بالا تر ہوکر منایا جائے توعیسیٰ مسیحی کا امن محبت اور سلامتی کا درس نہ صرف عام ہوجائے گا بلکہ جڑاں والا اور جوزف کالونی جیسے دل سوز واقعات بھی پیش نہ آئیں گے۔
معصومہ زہرا