متحدہ عرب امارات نے عرب دنیا کا پہلا جوہری برقی پلانٹ مکمل کر لیا
اردو انٹرنیشنل (مانیٹرنگ ڈیسک) متحدہ عرب امارات نے جمعرات کو عرب دنیا کے پہلے جوہری برقی پلانٹ کی تکمیل کا اعلان کرتے ہوئے اسے “نہایت اہم قدم” قرار دیا۔
سرکاری ملکیتی امارات جوہری توانائی کارپوریشن (ای این ای سی) نے ایک بیان میں کہا، ابوظہبی کا بارکہ جوہری برقی پلانٹ اپنے چوتھے اور آخری ری ایکٹر کے کمرشل آپریشن میں داخل ہونے کے بعد سالانہ 40 ٹیرا واٹ گھنٹے بجلی پیدا کرے گا۔
ای این ای سی نے کہا، یہ خلیجی ریاست کی بجلی کی ضروریات کا 25 فیصد پیدا کرے گا جہاں ایئر کنڈیشننگ ہر جگہ موجود ہے – یہ تقریباً نیوزی لینڈ کی سالانہ استعمال کے برابر ہے۔
ای این ای سی نے کہا کہ یہ سٹیشن دنیا کی سب سے بڑی تیل پیدا کرنے والی کمپنیوں میں سے ایک ابوظہبی نیشنل آئل کمپنی (ادنوک) سمیت ایمریٹس سٹیل اور ایمریٹس گلوبل ایلومینیم کو بجلی فراہم کرے گا۔
بارکہ نے 2020 میں اس وقت کام کا آغاز کیا جب اس کے چار ری ایکٹرز میں سے پہلے نے کام شروع کیا تھا۔
دنیا کے سب سے بڑے تیل برآمد کنندہ سعودی عرب نے بھی کہا ہے کہ وہ جوہری ری ایکٹر بنانے کا ارادہ رکھتا ہے۔
اماراتی صدر شیخ محمد بن زاید نے بارکہ کی تکمیل کو “کاربن کے صفر اخراج کی طرف سفر میں ایک اہم قدم” قرار دیا۔
انہوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا، “ہم آج اور کل اپنی قوم اور اپنے لوگوں کے فائدے کے لیے توانائی کے تحفظ اور پائیداری کو ترجیح دیتے رہیں گے۔”
بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کے مطابق پلانٹ کو “تقریباً 60-80 سالوں میں اس کے کام کی مدت کے اختتام پر مختلف حصے الگ کر کے ختم کرنا ہو گا۔”
سات امارات بشمول دارالحکومت ابوظہبی اور اقتصادی مرکز دبئی پر مشتمل متحدہ عرب امارات اوپیک کارٹیل میں تیل پیدا کرنے والے سب سے بڑے ممالک میں سے ایک ہے۔
ملکی معیشت کا زیادہ تر انحصار تیل پر ہوتا تھا لیکن 2050 تک اپنی نصف ضروریات کو پورا کرنے کے لیے یہ کافی تعداد میں قابلِ تجدید توانائی تیار کرنے کے لیے اربوں خرچ کر رہا ہے۔
گذشتہ سال اس نے اقوامِ متحدہ کے سی او پی 28 موسمیاتی مذاکرات کی میزبانی کی جس کے نتیجے میں حیاتیاتی ایندھن سے “دیگر ذرائع توانائی کی طرف منتقلی” کا معاہدہ ہوا۔
متحدہ عرب امارات ایران کے اس پار خلیج میں واقع ہے۔ ایران کے ساحلی شہر بوشہر کے باہر روس کا بنایا ہوا جوہری برقی پلانٹ ہے اور ساتھ ہی یورینیم کی افزودگی کا ایک متنازعہ پروگرام ہے۔
متحدہ عرب امارات نے بارہا کہا ہے کہ اس کے جوہری عزائم “پرامن مقاصد” کے لیے ہیں اور اس نے یورینم کی افزودگی کے پروگرام یا نیوکلیئر ری پروسیسنگ ٹیکنالوجیز تیار کرنے سے انکار کیا ہے۔
ملک اپنی زیادہ تر برقی ضروریات کے لیے گیس سے چلنے والے سٹیشنوں کا استعمال کرتا ہے لیکن اس کا ابوظہبی سے باہر دنیا کا ایک سب سے بڑا شمسی پلانٹ بھی ہے۔