فلسطینی عسکریت پسندی کے مکمل خاتمے تک وہ جنگ نہیں روکیں گے ، اسرائیلی وزیر اعظم
اردو انٹرنیشنل (مانیٹرنگ ڈیسک) اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے دوریاستی حل کو مسترد کرتے ہوئے حماس اور فلسطینی اتھارٹی کے مکمل خاتمے پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس کے بغیر اسرائیل پر خطرات منڈلاتے رہیں گے‘اسرائیلی وزیراعظم واضح طور پر کہہ چکے ہیں فلسطینی عسکریت پسندی کے مکمل خاتمے تک وہ جنگ نہیں روکیں گے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں انہوں نے جنگ بندی کے بعد فلسطینی اتھارٹی کو غزہ کا کنٹرول دینے کی مخالفت کا اظہار کرتے ہوئے زور دیا ہے کہ اسرائیلیوں کی بھاری اکثریت ان سے متفق ہے اور ان کی پالیسیوں کی حمایت کرتی ہے.
اسرائیلی وزیراعظم نے کہا کہ ایک بار جب ہم حماس کو ختم کر کے فلسطینی اتھارٹی کو غزہ میں لانا مسلے کا حل نہیں یہ اپنے بچوں کو دہشت گردی کی تعلیم دیتی ہے اور دہشت گردی کی مالی معاونت کرتی ہے نیتن یاہو نے کہا کہ اسرائیلی ان کے اس موقف کی حمایت کرتے ہیں کہ ہمیں فلسطینی ریاست کو اپنے گلے میں ڈالنے کی کوشش کو بھرپور طریقے سے مسترد کرنا چاہیے.
انہوں نے کہا کہ اسرائیلیوں کی اکثریت سمجھتی ہے کہ اگر ہم نے ایسا نہیں کیا تو ہمارے پاس 7 اکتوبر کے قتل عام کا اعادہ ہوگا، جو اسرائیل کے لیے برا ہے، فلسطینیوں کے لیے برا ہے اور مشرق وسطیٰ میں امن کے مستقبل کے لیے برا ہے یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ نیتن یاہو نے فلسطینی اتھارٹی کو غزہ پر حکومت کرنے کی اجازت دینے کی مخالفت کا اظہار کیا ہو.
امریکی صدر جو بائیڈن کے امریکی کیبل ٹی وی چینل کے ساتھ ایک انٹرویو میں صدر بائیڈن نے نیتن یاہو پر الزام لگایا وہ کہ اسرائیل کی مدد کرنے سے زیادہ اسرائیل کو نقصان پہنچا رہا ہے جس پر اسرائیلی وزیراعظم نے کہا کہ میں بالکل نہیں جانتا کہ کیا صدر کا مطلب کیا تھا لیکن اگر اس کا مطلب یہ ہے کہ میں اسرائیلیوں کی اکثریت کی خواہش کے خلاف ذاتی مفاد کی پالیسیوں پر عمل پیرا ہوں اور اس سے اسرائیل کے مفادات کو نقصان پہنچ رہا ہے تو وہ دونوں لحاظ سے غلط ہے.
نیتن یاہو نے کہا کہ یہ صرف میری پالیسیاں نہیں ہیں بلکہ وہ پالیسیاں ہیں جنہیں اسرائیلیوں کی بھاری اکثریت کی حمایت حاصل ہے. واضح رہے کہ حال ہی میں واشنگٹن اور تل ابیب کے درمیان اسرائیل کے ساتھ جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے تک پہنچنے میں رکاوٹ بننے اور غزہ کی جنگ میں بڑی تعداد میں عام شہریوں کی ہلاکتوں پر بار بار کی وارننگ کے باوجود واشنگٹن اور تل ابیب کے درمیان تناﺅ کے بارے میں رپورٹس سامنے آئی ہیںلیکن ماہرین نے امریکی لہجے میں تبدیلی کی وجہ آئندہ نومبر میں ہونے والے صدارتی انتخابات کی لڑائی کو قرار دیا ہے، جہاں یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ بائیڈن کی اسرائیل کے لیے اندھی حمایت، جنگی جرائم کی غزہ سے نکلنے والی تصاویر کے ساتھ مل کر، ان کی مقبولیت میں کمی کا باعث بنے گی خاص طور پر مسلم اکثریتی ریاستوں میں.
اسرائیل کی جانب سے دو ریاستی حل سے چشم پوشی اور کسی بھی قسم کے مذاکرات جو اس کی طرف لے جا سکتے ہیں، کو اس کے مغربی اتحادیوں کی جانب سے بھی تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے، جو سمجھتے ہیں کہ مشرق وسطیٰ میں تب ہی امن ہو گا جب اس حل کو نافذ کیا جائے اور فلسطینیوں کے لیے ایک آزاد ریاست قائم ہو جائے.
Latest Urdu news, Urdu videos, Urdu blogs and columns – اردو انٹرنیشنل