اردو انٹرنیشنل (مانیٹرنگ ڈیسک) جنوبی کوریا کے صدر یون سک یول نے مواخذے کے لیے ہونے والی ووٹنگ سے پہلے ملک میں مارشل لاء لگانے پر معافی مانگ لی ہے۔ تاہم صدر نے مستعفی ہونے سے گریز کیا ہے۔
ماہرین صدر کی جانب سے اس اقدام کو اپنی صدارت بچانے کی آخری کوشش قرار دے رہے ہیں۔
ہفتے کو ٹی وی پر نشر ہونے والے خطاب میں صدر یون سک یول نے کہا کہ وہ دوبارہ مارشل لگانے کی کوشش نہیں کریں گے۔
صدر کا مزید کہنا تھا کہ “منگل کو رات گئے مارشل لا لگانے کا فیصلہ مایوس کن تھا۔ اس دوران شہریوں کو پیش آنے والی مشکلات اور پریشانی پر مجھے افسوس ہے۔”
جنوبی کوریا کے صدر دو منٹ کی تقریر کے بعد معافی مانگنے والے انداز میں کیمرے کے سامنے جھک گئے اور چلے گئے۔
خیال رہے کہ جنوبی کوریا کے صدر نے منگل کی شب ملک میں ‘ایمرجنسی مارشل لا’ نافذ کر دیا تھا۔ صدر نے ٹیلی ویژن پر اپنے خطاب میں کہا تھا کہ اُن کے پاس آئین کے تحفظ کے لیے اس طرح کا قدم اٹھانے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔
انہوں نے خطاب میں ملک کی اپوزیشن پر پارلیمنٹ کو کنٹرول کرنے، شمالی کوریا کے ساتھ ہمدردی رکھنے اور ریاست مخالف سرگرمیوں سے حکومت کو مفلوج کرنے کا الزام بھی لگایا تھا۔
صدر کے اس اقدام کے چند گھنٹوں بعد ہی قانون سازوں نے مارشل لا کے خلاف ووٹ دے دیا جس کے بعد صدر نے مارشل لا منسوخ کر دیا تھا۔ قانون سازوں کو پارلیمان جانے سے روکنے کے لیے پولیس اور سیکیورٹی اہلکاروں کی بھاری نفری تعینات کی گئی تھی، لیکن وہ یہ محاصرہ توڑ کر پارلیمان میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے تھے۔
جنوبی کوریا کے قانون کے تحت، پارلیمنٹ میں اکثریتی ووٹ کے ساتھ مارشل لا کو اٹھایا جا سکتا ہے، جہاں حزب اختلاف کی ڈیمو کریٹک پارٹی کو اکثریت حاصل ہے۔
بعد ازاں جنوبی کوریا میں حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے صدر یون سک یول کے مواخذے کی تحریک ایوان میں جمع کرا دی تھی جس پر ہفتے کو ووٹنگ سے قبل صدر نے معافی مانگ لی۔
اگر یون کا مواخذہ ہو جاتا ہے تو انہیں فوری طور پر معطل کر دیا جائے گا اور ملک کی آئینی عدالت اس معاملے پر غور کے بعد اُنہیں ہٹانے یا نہ ہٹانے سے متعلق فیصلہ کرے گی، اس عمل میں کئی ہفتے اور مہینے بھی لگ سکتے ہیں۔