تربت: سی ٹی ڈی کا مبینہ آپریشن، بلوچ نوجوان کے قتل کیخلاف دھرنا چھٹے روز میں داخل

0
58
Protest against CTD in Kech

اردو انٹرنیشنل (مانیٹرنگ ڈیسک ) تربت پولیس کے مطابق “کاونٹر ٹیرارزم ڈیپارٹمنٹ “(سی ٹی ڈی) نے گزشتہ جمعرات کو علی الصبح چار افراد کی لاشیں ٹیچنگ ہسپتال تربت پہنچا کر بیان دیتے ہوئے یہ دعوی کیا تھا کہ مذکورہ افراد کو بانک چڑھائی پسنی روڈ پر ایک مقابلہ کے بعد ہلاک کردیا گیا۔اور مذکورہ افراد مسلح تھے انہیں ہلاک کرنے کے بعد ان کے قبضہ سے بھاری تعداد میں اسلحہ اور گولہ بارود برآمد کیا گیا ہے .

دوسری جانب بالاچ بلوچ کی فیملی کا کہناہے کہ بالاچ کو 29 اکتوبر کی رات 12 بجے گھر سے کے سامنے سی ٹی ڈی اہلکاروں نے حراست میں لیا تھا۔ 21 نومبر کو عدالت میں ریمانڈ حاصل کرنے کیلئے ان کی پیشی تھی اور عدالت نے دس روز کا ریمانڈ دیاتھا . تربت کے سینئر وکیل جاڈین دشتی بھی انکی وکالت اور ضمانت کیلئے پیش ہوا تھا ۔ فیملی نے سوال کرتے ہوئے کہا کہ بالاچ سی ٹی ڈی کی کسٹڈی میں تھا پھر بالاچ پسنی روڈ بانک چڑھائی میں کیسے پہنچاِ ؟

اس ماورائے عدالت قتل کیخلاف کیچ بار ایسوسی ایشن نے شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے عدالتوں کا بائیکاٹ کیا تھا.انہوں نے اس قتل کو ملکی اور غیر ملکی قوانین اور انسانی حقوق کی پامالی کی بدترین مثال قرار دیا.

جب کہ سی ٹی ڈی کے مطابق ”20 نومبر 2023 کو دہشت گرد ” بالاچ کو پانچ کلو گرام بارودی مواد کے ساتھ گرفتار کیا گیا اور حسب ضابطہ اس کو عدالت میں پیش کر کے ریمانڈ حاصل کیا گیا دوران تفتیش بالاچ نے اعتراف کیا کہ اس کا تعلق کالعدم تنظیم بی ایل اے (BLA) سے ہے اور وہ مسلم گرو گروپ کا ممبر رہا ہے اور اس نے مختلف ٹارگٹ کلنگ، ہینڈ گرنیڈ اور آئی ای ڈی (IED) لگانے کی کاروائیوں کا بھی اعتراف کیا مزید بالاچ نے بتایا کہ وہ یہ بارودی مواد اپنے دیگر ساتھیوں کے لیے لے جا رہا تھا جنہوں نے مل کر تربت شہر میں ایک اور دہشت گرد کاروائی کرنی تھی اور یہ بھی بتایا اس سلسلے میں ایک موٹر سائیکل IED وہ پہلے ہی سے تیار کر چکے ہیں جو کہ اس وقت پسنی روڈ کے نزدیک ایک خفیہ مقام پر موجود ہے اور اس مقام پر اس کے دیگر“ ساتھی بھی اکثر رات کو موجود ہوتے ہیں.

سی ٹی ڈی کا مزید کہنا تھا کہ ”اس انکشاف پر سی ٹی ڈی بلوچستان نے ایک ریڈنگ پارٹی تشکیل دی اور 22 اور 23 کی درمیانی شب، بالاج کی نشاندہی پر اس جگہ ریڈ کیا گیا مگر وہاں پہنچتے ہی پہلے سے موجود دہشت گردوں نے ریڈنگ پارٹی پر فائرنگ شروع کر دی اور ساتھ ہی دستی بم بھی پھینکے جس سے ریڈنگ پارٹی کی گاڑی کو جزوی نقصان پہنچا اور اس کے بعد دہشت گردوں کی طرف سے ایک راکٹ لانچر بھی فائر کیا گیا۔ ریڈنگ پارٹی نے حفاظت خود اختیاری کے تحت جوابی فائرنگ کی اور دہشت گردوں کو سرنڈر ہونے کے لیے وار ننگ بھی دی دہشت گردوں کی فائرنگ سے ملزم بالاچ موقع پر ہی ہلاک ہو گیا جبکہ اس کے ساتھ موجود اہلکار بلٹ پروف جیکٹ پہننے کی وجہ سے محفوظ رہے.

ہیومن رائٹس آف پاکستان نے بھی اس حوالے سے سماجی رابطہ کی ویب سائیٹ ایکس سابقہ ٹیوٹر پر لکھا ہے کہ ”ایچ آر سی پی قانون نافذ کرنے والے اداروں اور سیکیورٹی اداروں کی جانب سے ماورائے عدالت قتل کے عمل کی شدید مذمت کرتا ہے، جو بلوچستان، خاص طور پر کیچ اور اس کے آس پاس کے علاقوں سے مسلسل رپورٹ ہوتے رہتے ہیں۔ ماورائے عدالت لوگوں کا مارنا کسی بھی صورت میں جائز نہیں ہے، اور یہ ریاست کی قانونی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کی زندگیوں کو تحفظ کرے ۔انہوں نے کہا مجرموں کو دی جانے والی استثنیٰ ختم ہونی چاہیے اور ذمہ داروں کو احتساب ہونا چاہیے

سابق سینیٹر اور نیشنل ڈیموکریٹک مومنٹ کے رہنما افراسیاب خٹک نے سماجی رابطہ کی ویب سائیٹ ایکس پر اس حوالے سے اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ سی ٹی ڈی کی طرف سے بلوچ قیدیوں کو مارنا تشویشناک عمل ہے۔ انہوں نے اس واقعہ کو انسانی حقوق کی پامالی قرار دیتے ہوئے جوڈیشل کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا ۔

اس کیس کےحوالے سے تربت کی مقامی عدالت نے اس واقعے میں ملوث اہلکاروں اور سی ٹی ڈی کے مقامی افسران کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کے احکامات جاری کیے تھے تاہم اس حوالے سے اب تک پیشرفت نہ ہو سکی.

دوسری جانب آج تربت میں سی ٹی ڈی کے مبینہ مقابلے میں مارے جانیوالے بالاچ بلوچ کی تدفین کردی گئی جب کہ اس حوالے سے تربت سمیت پورے مکران ڈویژن میں اس واقعے کیخلاف احتجاج آج چھٹے روز بھی جاری ہے.