پاکستانی تجارتی راستے نظر انداز کرکے طالبان نے ایرانی بندرگاہ چابہار پر نظریں جما لیں

0
147
طالبان نے ایرانی بندرگاہ چابہار پر نظریں جما لیں

پاکستانی تجارتی راستے نظر انداز کرکے طالبان نے ایرانی بندرگاہ چابہار پر نظریں جما لیں

اردو انٹرنیشنل ( مانیٹرنگ ڈیسک) تفصیلات کے مطابق افغانستان نے بین الاقوامی منڈیوں تک رسائی کے لیے پاکستانی تجارتی راستے نظر انداز کرکے ایرانی بندرگاہ چابہار پر نظریں جما لی ہیں.

تفصیلات کے مطابق کابل میں طالبان انتظامیہ نے فروری کے اواخر میں ایران کی جنوبی بندرگاہ چابہار میں 35 ملین ڈالر کے تعمیراتی اور سرمایہ کاری کے منصوبے کا اعلان کیا ہے، جو پاکستان کے گوادر اور کراچی کے بغل میں افغانستان کے لیے بحر ہند تک رسائی کا قریب ترین راستہ ہے۔

افغانستان اور ایران کے درمیان یہ سرمایہ کاری ایسے وقت میں کی گئی جب دونوں ممالک کے درمیان نہ صرف سرحدی تنازعات اور پانی کے حقوق جیسے معاملات پر کشیدگی تھی بلکہ ہمسایہ ملک پاکستان کے ساتھ بھی تعلقات کشیدہ ہیں۔

اس علاقائی تناؤ کے باوجود، چابہار میں سرمایہ کاری کو افغانستان کی جانب سے اپنی تجارت کے لیے متبادل راستے کو محفوظ بنانے اور اپنی معیشت کو تقویت دینے کے لیے ایک اسٹریٹیجک کوشش کے طور پر دیکھا جاتا رہا ہے۔

ایران کی چابہار بندرگاہ افغانستان کے لیے بین الاقوامی منڈیوں تک رسائی کے لیے ایک اہم گیٹ وے پیش کرتی ہے، جس سے اس کے پاکستان سمیت قریبی پڑوسیوں پر مکمل انحصار کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

ایران سرکاری طور پر کابل میں طالبان انتظامیہ کو تسلیم نہیں کرتا لیکن اس کے تجارتی اور تجارتی تعلقات برقرار ہیں جس میں چابہار ایک اہم خصوصیت بن سکتا ہے۔

طالبان کو امید ہے کہ اس منصوبے سے افغانستان کی معیشت کی بحالی میں مدد ملے گی جو 2021 کے وسط سے بین الاقوامی پابندیوں کا شکار ہے ۔

طالبان کے زیر انتظام وزارت صنعت و تجارت کے ترجمان عبدالسلام جواد اخوندزادہ کا کہنا ہے کہ افغانستان چابہار بندرگاہ کو زرعی مصنوعات، خوراک اور صنعتی خام مال کی برآمد اور ہمسایہ ممالک اور وسیع تر خطے سے سامان کی نقل و حمل کے لئے استعمال کر سکتا ہے۔

اخوندزادہ نے مزید کہا کہ اس بندرگاہ کے استعمال سے افغانستان میں نقل و حمل کی صنعت کو ترقی اور غیر ملکی اور ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔

پاکستانی تجارتی راستوں کو نظر انداز کرنے کی ایک وجہ پاکستانی حکام کی جانب سے افغان تاجروں پر عائد مختلف ٹیکس ڈیوٹیز بھی بتائی جا رہی جس کی وجہ سے طالبان انتظامیہ کیلئے کراچی پر انحصار کرنا مہنگا ہو گیا ہے۔

افغان صدارتی دفتر کے سابق اقتصادی مشیر شفیق اللہ الہامی کا کہنا ہے کہ پاکستان نے برآمدات پر ٹیکسوں میں اضافہ کیا، داخلی راستوں پر افغان تاجروں کے سامان میں بار بار تاخیر کی، اور باقاعدگی سے افغان تاجروں پر جرمانے عائد کیے جس سے ان کے کاروبار کو نقصان پہنچا۔

Latest Urdu news, Urdu videos, Urdu blogs and columns – اردو انٹرنیشنل