پی ٹی آئی کو بلے کا انتخابی نشان نہ دینے کا الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل

0
116

پی ٹی آئی کو بلے کا انتخابی نشان نہ دینے کا الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل

اردو انٹرنیشنل (مانیٹرنگ ڈیسک) پشاور ہائی کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف کو بلے کا انتخابی نشان نہ دینے کا الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل کرتے ہوئے پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات کالعدم اور پارٹی نشان واپس لینے کے فیصلے پر حکم امتناع جاری کردیا، عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ کیس کا فیصلہ ہونے تک الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل ہوگا، عدالتی تعطیلات ختم ہونے کے بعد ڈبل بینچ میں یہ کیس سنا جائے گا۔

تفصیلات کے مطابق پی ٹی آئی نے انٹرا پارٹی انتخابات پر الیکشن کمیشن کے فیصلے کو پشاور ہائیکورٹ میں چیلنج کیا جہاں تحریک انصاف کی درخواست پر جسٹس کامران حیات میاں خیل نے سماعت کی، پی ٹی آئی کے وکلا علی ظفر، بابر اعوان اور بیرسٹر گوہر نے دلائل دیئے۔

علی ظفر نے دلائل میں کہا کہ الیکشن کمیشن نے اختیارات سے تجاوز کیا ہے، پی ٹی آئی کو کہا گیا کہ 20 دن کے اندر انتخابات کرائیں، 3 دسمبر کو انٹرا پارٹی انتخابات کیے گئے، الیکشن کمیشن نے مانا کہ انٹرا پارٹی انتخابات ہوئے ہیں، الیکشن کمیشن نے انتخابات کے بارے میں کہا کہ ٹھیک ہوئے ہیں، الیکشن کمیشن نے سرٹیفکیٹ بھی دے دیا پھر الیکشن کمیشن نے کہا کہ انتخابات ہوئے لیکن جس نے کرائے وہ ٹھیک نہیں ہے، الیکشن کمشنر پر اعتراض آگیا اور ہمارے انتخابات کالعدم قرار دیے گئے، الیکشن کمیشن کا آرڈر غیر قانونی اور غیر آئینی ہے، الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی سے انتخابی نشان بیٹ واپس لے لیا، اب ہم انتخابات میں سیاسی جماعت کی حیثیت سے حصہ نہیں لے سکتے، مخصوص نشستیں بھی سیاسی جماعت کو بغیر انتخابی نشان نہیں مل سکتیں، اس طرح ایک سیاسی جماعت کو عام انتخابات سے باہر کردیا گیا۔

دوران سماعت علی ظفر کے دلائل پر جسٹس کامران حیات نے سوال کیا کہ ’اس کیس میں جو درخواست گزار تھے ان کا الیکشن کمیشن فیصلے میں ذکر ہے یہ کون ہیں؟‘ اس پر علی ظفر نے جواب دیا کہ ’الیکشن کمیشن تو خود فریق بن گیا ہے، جو درخواست گزار تھے وہ پی ٹی آئی کے ممبر ہی نہیں ہیں، الیکشن نہ کرانے پر صرف جرمانہ ہے، ایسی کوئی سخت سزا نہیں ہے لیکن ہمیں یہاں الیکشن سے باہر نکالا جارہاہے‘۔

عدالت نے کہا کہ ’الیکشن کمشن کہتا ہے عمر ایوب جنرل سیکرٹری نہیں، انہوں نے چیف الیکشن کمشنرکیسے مقرر کیا، چیف الیکشن کمشنر کو جنرل سیکرٹری نے کیسے تعینات کیا؟‘ اس پر علی ظفر نے کہا کہ ’یہ انٹرا پارٹی انتخابات کو کالعدم قرار دینے کے لیے کوئی گراؤنڈ نہیں ہے، اگر کسی کو اعتراض ہے تو وہ سول کورٹ جاسکتا ہے، آئین وقانون یہی کہتا ہے کہ انٹرا پارٹی انتخابات کے بعد 7 دنوں میں پارٹی سربراہ الیکشن کمیشن کو سرٹیفکیٹ دے گا، الیکشن ایکٹ میں بھی نہیں لکھا کہ انٹرا پارٹی انتخابات الیکشن کمیشن کالعدم قرار دے سکتا ہے‘۔