پارلیمنٹ کو ربر سٹیمپ کی طرح کام نہیں کرنا چاہیے، وزیر دفاع خواجہ آصف
اردو انٹرنیشنل (مانیٹرنگ ڈیسک)وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ آئینی ترامیم کے معاملے میں کوئی سیاست نہیں اور بطور پارلیمنٹیرین قانون سازی ہمارا اولین فرض ہے۔انہوں نے کہا کہ آئینی ترمیم کی دستاویز پر مکمل اتفاق ہونے پر یہ ایوان میں آئے گی۔
“63A میں ایک نئی وضاحت تھی کہ ووٹ لیا جانا چاہئے لیکن اگر آئینی عدالت سے متعلق مسودہ تجویز ہے تو اسے شمار نہیں کیا جائے گا۔ یہ چارٹر آف ڈیموکریسی (COD) کا بھی حصہ ہے اور بہت سے جمہوری ممالک میں بھی اس پر عمل کیا جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کا مطلب یہ نہیں کہ پارلیمنٹ سے تجاوز کیا جائے گا۔خواجہ آصف نے کہا کہ مخصوص کیس کے لیے ایک باڈی بنائی جائے گی جو آئینی معاملات کو دیکھے گی۔
انہوں نے کہا کہ لوگ عشروں سے عدالت عظمیٰ سے انصاف کے منتظر ہیں جبکہ 27 لاکھ مقدمات اعلیٰ عدالتوں میں زیر التوا ہیں۔
“موجودہ آئینی ترمیم عدالتوں کے بوجھ کو کم کرنے کی ایک کوشش ہے اور اس میں کوئی سیاسی مفادات شامل ہیں۔ یہ کوشش عام آدمی کی زندگی کو آسان بنانے کے لیے کی جا رہی ہے۔‘‘
خواجہ آصف نے کہا کہ عدلیہ بحالی تحریک کے بعد ججز کی تقرری کا طریقہ کار طے ہوا، اس وقت عدلیہ کی جانب سے سینئر جج سے رابطہ کیا گیا، پارلیمنٹ کا کردار ’ربڑ سٹیمپ‘ ہے۔
انہوں نے اپوزیشن سے کہا کہ وہ کسی ایسی شق کی نشاندہی کریں جو حکومتی اتحاد کے مفادات کا تحفظ کرتی ہو۔
“مجھے نہیں لگتا کہ کوئی شخص یا ادارہ ان چیزوں سے متفق نہیں ہے، ہم آئین کو اس شکل میں واپس لانے کی کوشش کریں گے جو COD سے ہم آہنگ ہو،” انہوں نے زور دیا۔
تارڑ کا کہنا ہے کہ مقدمات کا بروقت فیصلہ نہ کرنے پر ججوں پر کارروائی کی تجاویز شامل ہیں۔
وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان چینی کے ریٹ اور بجلی کے کھمبے لگانے کا حکم نہ دیں اور یہ نہ بتائیں کہ کس پارٹی (ملک) کو چلانا ہے اور بتانا چاہیے کہ سربراہ کون ہو گا۔ پارٹی
انہوں نے کہا کہ مقررہ مدت کے اندر کیس کا فیصلہ نہ کرنے پر جج کے خلاف تادیبی کارروائی ہونی چاہیے، یہ آئینی پیکج کا حصہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر وکلاء نے آئینی پیکج کو مسترد کیا تو میں اس کا ذمہ دار ہوں گا۔
قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور شوکت صدیقی ریفرنسز کو کوئی کیسے بھول سکتا ہے۔
ہم چاہتے ہیں کہ تمام صوبوں کی اکائیوں کو شامل کرنے کے لیے ایک بینچ تشکیل دیا جائے۔ اگر یہ حکومتی بل ہے تو سب سے پہلے اس پر حکومتی حلقوں سے مشاورت کی جائے، پھر مسودہ بل کو کابینہ کے سامنے لایا جاتا ہے جس کے بعد کابینہ اس کی منظوری دیتی ہے، پھر سی سی ایل سی کمیٹی میں تجاویز پر بحث ہوتی ہے، سی سی ایل سی میں تمام یونینز کی نمائندگی ہوتی ہے۔