فرد جرم عائد ہوتے ہی بانی پی ٹی آئی نے مذاکرات کے دروازہ بند کر دیے
پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین عمران خان نے جمعرات کو ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مزید کسی بھی بات چیت کو مسترد کرتے ہوئے اسے ’’بے کار مشق‘‘ قرار دیا۔
بانی پی ٹی آئی کی جانب سے یہ اعلان اسپیشل جج سینٹرل شاہ رخ ارجمند کے اس اعلان کے بعد کیا گیا جس میں کہا گیا تھا کہ پی ٹی آئی سربراہ اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی پر نئے توشہ خانہ کیس میں 2 اکتوبر کو فرد جرم عائد کی جائے گی۔
بانی پی ٹی آئی اور انکی اہلیہ پر الزام لگایا گیا ہے کہ انہوں نے ایک غیر ملکی رہنما کی طرف سے تحفے میں دیا گیا مہنگا Bvlgari جیولری سیٹ بہت کم قیمت پر اپنے پاس رکھا تھا۔
قبل ازیں سماعت کے دوران وکیل دفاع نے سابق وزیراعظم اور ان کی اہلیہ کی بعد از گرفتاری ضمانت کی درخواست جمع کرائی اور عدالت سے استدعا کی کہ اس پر فوری فیصلہ کیا جائے۔
دوسری جانب استغاثہ کارروائی کے اختتام تک جوابی دلائل مکمل نہ کرسکا اور مزید وقت مانگ لیا۔
عدالت نے استغاثہ سے کہا کہ وہ 28 ستمبر تک دلائل مکمل کریں۔
بانی پی ٹی آئی نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 28 ستمبر کو راولپنڈی میں جلسہ نہیں احتجاج کریں گے اور عدالت سے راولپنڈی جلسے کی درخواست واپس لیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں معلوم ہے انہوں نے جلسے کی اجازت نہیں دینی اور اگر جلسے کی اجازت مل بھی گئی تو یہ شہر سے باہر دیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارے وکلا کل سپریم کورٹ کے باہر بھی احتجاج کریں گے۔
جب صحافی نے ان سے سوال کیا کہ رؤف حسن نے کہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات پارٹی پالیسی ہے تو اس پر عمران خان نے جواب دیا کہ رؤف حسن کو غلط فہمی ہوئی ہے، اسٹیبلشمنٹ سے کسی قسم کے مذاکرات کا کوئی فائدہ نہیں۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا علی امین گنڈا پور کے لیے بھی یہی ہدایات ہیں کہ مذاکرات نہ کریں تو بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ علی امین سمیت تمام لیڈرشپ کو ہدایات ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کا کوئی فائدہ نہیں۔
اپنے سابقہ بیان میں چیف جسٹس کے عہدے کے لیے جسٹس منصور علی شاہ کی حمایت کرنے والے سابق وزیر اعظم نے واضح کیا کہ جسٹس منصور علی شاہ سے ان کی کوئی ذاتی جان پہچان نہیں ہے۔